عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 102
ایک اور دِن شہید ہوا، ہو گئی ہے شام
لشکر سے شب کے شور اُٹھا ہو گئی ہے شام
مدّت ہوئی کہ سر پہ سرابوں کی دُھوپ ہے
دشتِ طلب میں ہم سے خفا ہو گئی ہے شام
لو دے اُٹھا ہے دستِ دُعا پر شفق کا رنگ
تیری ہتھیلیوں پہ حنا ہو گئی ہے شام
میرے لبوں سے مل کے الگ کیا ہوئی وہ زُلف
جلتی دوپہریوں سے جدا ہو گئی ہے شام
عارض کی دُھوپ، زُلف کے سائے، بدن کی آنچ
ہنگامہ بن کے دِل میں بپا ہو گئی ہے شام
غربت کی دھول، کیسے کسی کو دِکھائی دے
میرے برہنہ سر کی رِدا ہو گئی ہے شام
سورج کا خوُن بہنے لگا پھر ترائی میں
پھر دستِ شب میں تیغِ جفا ہو گئی ہے شام
عرفان صدیقی