عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 52
ہر چند میں قسمت کا سکندر تو نہیں تھا
وہ شخص بھی اِنسان تھا، پتھر تو نہیں تھا
یہ خون میں اِک لہر سی کیا دَوڑ رہی ہے
سایہ جسے سمجھے تھے وہ پیکر تو نہیں تھا
آنکھوں میں ہیں گزری ہوئی راتوں کے خزانے
پہلو میں وہ سرمایۂ بستر تو نہیں تھا
اِتنا بھی نہ کر طنز، تنگ ظرفئ دِل پر
قطرہ تھا، بہرحال سمندر تو نہیں تھا
غزلوں میں تو یوں کہنے کا دَستور ہے وَرنہ
سچ مچ مرا محبوب ستم گر تو نہیں تھا
یہ زَخم دِکھاتے ہوئے کیا پھرتے ہو عرفانؔ
اِک لفظ تھا پیارے، کوئی نشتر تو نہیں تھا
عرفان صدیقی