جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 53
نوحہ گزار ہوٗ کی صدا کے سوا نہ تھا
جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا
پل بھر میں سیم تاب تو پل بھر میں لالہ رنگ
وہ دشت اِک طلسم سرا کے سوا نہ تھا
اُن کی ظفر پہ جیش حریفاں تھی حیرتی
اُن کی طرف تو کوئی خدا کے سوا نہ تھا
کارِ آفریں کے دست بریدہ کی دسترس
اک فرض تھا کہ عرض وفا کے سوا نہ تھا
کیا قافلہ گیا ہے ادھر سے کہ جس کے ساتھ
کچھ ساز و برگ شور درا کے سوا نہ تھا
زیر قدم تھی دور تلک خاک ناسپاس
سر پر کچھ آسماں کی ردا کے سوا نہ تھا
اک سیل خوں تھا اور خدا کی زمین پر
کوئی گواہ تیغ جفا کے سوا نہ تھا
یہ چشم کم نظر تہہ خنجر کہے جسے
کچھ بھی گلوئے صبر و رضا کے سوا نہ تھا
عرفان صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s