اور جو اس تیر سے بچ کر نکل آیا میں تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 49
جس نے میری ہی طرف تیر چلایا میں تھا
اور جو اس تیر سے بچ کر نکل آیا میں تھا
ان چراغوں کے اب اتنے بھی قصیدے نہ پڑھو
یار، تم نے جسے راتوں کو جلایا، میں تھا
اے ہوا میرے سفینے کو ڈبونے والی
دیکھ، تونے جسے ساحل پہ لگایا، میں تھا
خاک پر ڈھیر ہے قاتل، یہ کرشمہ کیا ہے
کہ نشانے پہ تو مدت سے خدایا، میں تھا
جو مجھے لے کے چلی تھی وہ ہوا لوٹ گئی
پھر کبھی جس نے پتہ گھر کا نہ پایا، میں تھا
اب لہو تم کو بھی پیارا ہے چلو یوں ہی سہی
ورنہ یہ رنگ تو اس دشت میں لایا میں تھا
عرفان صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s