منصور آفاق ۔ غزل نمبر 158
ہے تیرا سامنا کرنا، شبِ زوال کے بعد
یہ یاد آئے گا شاید ہزار سال کے بعد
ترے زمانے میں ہوتا تو عین ممکن تھا
کھڑا غلاموں میں ہوتا کہیں بلال کے بعد
عجب حصار سا کھینچا ہے اسم نے تیرے
خیال کوئی نہ آیا ترے خیال کے بعد
تجھے ملے تو ملاقاتیں سب ہوئیں منسوخ
ہوئی تلاش مکمل، ترے وصال کے بعد
فرشتے ٹانکتے پھرتے ہیں پھول شاخوں پر
خدا بدل گیا اس کی بس ایک کال کے بعد
وہ جس نے مجھ سے کہا آپ کون ہیں منصور
سوال بن گیا وہ آئینہ سوال کے بعد
منصور آفاق