یعنی ہمیں تلاش تمہاری گلی کی تھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 491
پائے طلب کو جستجو آسودگی کی تھی
یعنی ہمیں تلاش تمہاری گلی کی تھی
یہ سرفرازیوں کی کہانی عجیب ہے
جو اپنے پاؤں میں ہے یہ منزل کسی کی تھی
برسی گھٹائے فیض رساں جیسے آج ہے
ویسی امید آپ سے دریا دلی کی تھی
بے رحم باسیوں نے ٹھہرنے نہیں دیا
اُس شہر سے تمنا کہاں واپسی کی تھی
کوئی خبر لا آتے دنوں کی غیاب سے
یہ ساری داستان تو گزری ہوئی کی تھی
ابھری جبینِ شیخ پہ کیوں غیظ کی شکن
منصور کے لبوں پہ صدا یانبی کی تھی
منصور آفاق

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s