منصور آفاق ۔ غزل نمبر 230
وہ امریکا تھی ہر بات روا تھی اس کو
کیسے سمجھ لیتا میں اپنا ساتھی اس کو
جنگ نہیں ہو سکتی تھی اس بے پرواسے
میں نے فنا ہونا تھا اور بقا تھی اس کو
میرے ساتھ جہاں تھا پھر بھی ہار گیا میں
ایک مقدس ماں کی صرف دعا تھی اس کو
انجانے میں بھیگ گئی تھیں جلتی پلکیں
کچھ کہنے کی اور ضرورت کیا تھی اس کو
اپنے پیٹ پہ پتھر باندھ کے جو پھرتا تھا
بخش دیا ہے ایک سخی نے ہاتھی اس کو
دیکھ کے چہرہ کو منصور کہا پھولوں نے
راس میانوالی کی آب و ہوا تھی اس کو
منصور آفاق