منصور آفاق ۔ غزل نمبر 133
لگتے ہیں خوبصورت گزری ہوئی کے خواب
کیا ہے جو دیکھتا ہوں پچھلی گلی کے خواب
ہیں بے چراغ دل کے جگنو قطار میں
پلکوں سے چُن رہا ہوں لا حاصلی کے خواب
آنسو بہا رہی ہیں آنکھیں فرات کی
پتھرا گئے ہیں جیسے تشنہ لبی کے خواب
ہے اجتماعی وحشت چشمِ شعور میں
اپنے خمیر میں ہیں کیا کیا کجی کے خواب
مجبور دل الگ ہے دل کی طلب الگ
بستر کسی کا بے شک دیکھے کسی کے خواب
منصور موتیوں سے جس کی بھری ہے جیب
تاریخ لکھ رہی ہے اک بس اسی کے خواب
منصور آفاق