منصور آفاق ۔ غزل نمبر 444
آب و دانہ کے لئے آئے پرندویہ سکونت کیا ہوئی
کچھ کہو وہ رت بدلنے پر پلٹ جانے کی عادت کیا ہوئی
چند دن وہ ساحلوں پر رکنے والے کیا ہوئے بحری جہاز
دور دیسوں کے سفر سے لوٹ آنے کی روایت کیا ہوئی
دیکھنے آئے تھے ہم کافر تو حسنِ کافرانہ کو مگر
اس گنہ آباد بستی میں مسلمانوں کی ہجرت کیا ہوئی
ساحلوں پر ڈوبتے سورج پہ اتری ہے کوئی پیتل کی کونج
سیپیاں چنتی ہوئی سر گرم کرنوں کی حرارت کیا ہوئی
ہو گئی بچی کی چھاتی تو سلگتے سگریٹوں سے داغ داغ
وہ جو آنی تھی زمیں پر آسمانوں سے قیامت کیا ہوئی
کیا ہوا وہ جنگ سے اجڑاہوابچوں بھرا منصورپارک
وہ کتابوں سے بھری تہذیب کی روشن عمارت کیا ہوئی
منصور آفاق