منصور آفاق ۔ غزل نمبر 485
کھڑکیوں کے شیشوں سے دیکھتی سڑک پر تھی
کمرے میں اندھیرا تھا روشنی سڑک پر تھی
قمقموں کی آنکھیں تھیں جھلملاتی کاروں میں
قہقہے تھے پیڑوں پر اک ہنسی سڑک پر تھی
سائرن بجاتی تھیں گاڑیاں قطاروں میں
فائروں کی گونجیں تھیں سنسنی سڑک پر تھی
آتے جاتے لوگوں پر موسمِ بہارا ں تھا
منتظر پرندوں کی ،ٹاہلی سڑک پر تھی
روڈ پر سپاہی بھی پھینکتے تھے آنسو گیس
احتجاجی ریلی بھی ناچتی سڑک پر تھی
سرخ سے اشارے پر چیختے سلنسر تھے
اور دھواں کے پہلو میں دھول بھی سڑک پر تھی
ہیرہ منڈی جانا تھا کچھ عرب سفیروں نے
کس قدر ٹریفک اُس اک رکی سڑک پر تھی
جمع ایک دنیا تھی دیکھتی تھی کیا منصور
ایک چھوٹی سی بچی گر پڑی سڑک پر تھی
منصور آفاق