منصور آفاق ۔ غزل نمبر 497
کسی کے صرف چھولینے سے ا یسے آگ لگ جائے
کسی پٹرول اسٹیشن کو جیسے آگ لگ جائے
کسی بیلے میں اشکوں کے دئیے تک بھی نہ روشن ہوں
کہیں پر بانسری کی صرف لے سے آگ لگ جائے
ہواؤں کے بدن میں سرخ موسم کے سلگنے سے
گلابو ں کے لبوں کی تازہ مے سے آگ لگ جائے
کبھی جلتے ہوئے چولہے میں جم جائے بدن کی برف
کبھی بہتے ہوئے پانی میں ویسے آگ لگ جائے
کسی کے بھیگنے سے کس طرح جلتی ہیں برساتیں
کسی کے چلنے سے رستے میں کیسے آگ لگ جائے
منصور آفاق