ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 115
پیر فرید کی روہی میں ہوں ، مجھ میں پیاس کا دریا
ڈوب گیا ہے تھل مارو میں میری آس کا دریا
عمرِ رواں کے ساحل پر اوقات یہی ہیں دل کے
صبح ، طلب کی بہتی کشتی، شب ،وسواس کا دریا
سورج ڈھالے جا سکتے تھے ہر قطرے سے لیکن
یوں ہی بہایا میں نے اشکوں کے الماس کا دریا
جس کے اک اک لمحے میں ہے صدیوں کی خاموشی
میرے اندر بہتا جائے اس بن باس کا دریا
ہم ہیں آبِ چاہ شباں کے ہم حمام سگاں کے
شہر میں پانی ڈھونڈ رہے ہو چھوڑ کے پاس کا دریا
تیری طلب میں رفتہ رفتہ میرے رخساروں پر
سوکھ رہا ہے قطرہ قطرہ تیز حواس کا دریا
سورج اک امید بھرا منصور نگر ہے لیکن
رات کو بہتا دیکھوں اکثر خود میں یاس کا دریا
منصور آفاق

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s