منصور آفاق ۔ غزل نمبر 354
پلیز جمع کرومت ملال کی آنکھیں
ڈرائیں گی یہ غمِ ذوالجلال کی آنکھیں
جواب دو کہ فریضہ یہی تمہارا ہے
ہیں انتظار میں ، میرے سوال کی آنکھیں
بڑا ہے شوق مسافر نوازیوں کا انہیں
بچھا رہے ہیں شجر اپنی چھال کی آنکھیں
مرا خیال ہے تارے نہیں یہ آنکھیں ہیں
شبِ فراق میں صبحِ وصال کی آنکھیں
حنوط کرنا پڑے گا چراغِ شام مجھے
کھلی ہوئی افق پر زوال کی آنکھیں
کٹا ہوا یہ کوئی کیک تو نہیں منصور
پڑی ہیں تھال میں اک اور سال کی آنکھیں
منصور آفاق