منصور آفاق ۔ غزل نمبر 129
دونوں طرف ذرا ذرا تقسیم ہو گیا
چلنے لگے تو راستہ تقسیم ہو گیا
کچھ دیدئہ سیاہ میں کچھ تیرہ بخت میں
کاجل شبِ فراق کا تقسیم ہو گیا
پہلے پہل تو ہنس پڑے سن کر کسی کی بات
پھر آنسوئوں میں حوصلہ تقسیم ہو گیا
خود کو کیا تھا جمع بڑی مشکلوں کے ساتھ
پھر کرچیوں میں بٹ گیا تقسیم ہو گیا
محسوس یوں ہوا کسی زلفِ سیہ کا لمس
شانوں پہ جیسے ابر سا تقسیم ہو گیا
منصور یادِ یار کے انبوہ میں کہیں
وہ دل جو دوست اپنا تھا تقسیم ہو گیا
منصور آفاق