منصور آفاق ۔ غزل نمبر 597
کوئی دہلیزِ جاں سے اٹھتا ہے
چاند جب آسماں سے اٹھتا ہے
ہے ابھی کوئی خالی بستی میں
وہ دھواں سا مکاں سے اٹھتا ہے
چھوڑ آتا ہے نقشِ پا کا چراغ
پاؤں تیرا جہاں سے اٹھتا ہے
جس بلندی کو عرش کہتے ہیں
ذکر تیراؐ وہاں سے اٹھتا ہے
اس نے سینے پہ ہاتھ رکھ کے کہا
درد سا کچھ یہاں سے اٹھتا ہے
اک ستارہ صفت سرِ آفاق
دیکھتے ہیں کہاں سے اٹھتا ہے
ہم ہی ہوتے ہیں اس طرف منصور
پردہ جب درمیاں سے اٹھتا ہے
منصور آفاق