منصور آفاق ۔ غزل نمبر 399
اور جینے کا سبب کوئی نہیں
پہلے تُو تھا مگر اب کوئی نہیں
صرف اک جاں سے گزرنا ہے مجھے
مجھ سا بھی سہل طلب کوئی نہیں
خواہشِ رزق درندوں کی طرح
جیسے اس شہر کا رب کوئی نہیں
وقت کیفیتِ برزخ میں ہے
کوئی سورج، کوئی شب، کوئی نہیں
ایک تعزیتی خاموشی ہے
شہر میں مہر بلب کوئی نہیں
وصل کی رات بھی تنہا میں تھا
میرے جیسا بھی عجب کوئی نہیں
کیوں گزرتا ہوں وہاں سے منصور
اس گلی میں مرا جب کوئی نہیں
منصور آفاق