پھر کسی نے سونا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 596
خالی پھر بچھونا ہے
پھر کسی نے سونا ہے
سربلند لوگوں کا
بادشاہ بونا ہے
پوری کیسے ہو تعبیر
خواب آدھا’ پونا‘ ہے
دوسروں کے ماتم پر
اپنا اپنا رونا ہے
اجنبی ہے دنیا سی
کون مجھ سا ہونا ہے
انتظارِ جاری نے
کیا کسی کو کھونا ہے
آنسوئوں کی بارش سے
قیقہوں کو دھونا ہے
وقت ایک بچہ سا
آدمی کھلونا ہے
زخم زخم دامن کا
چاک کیا پرونا ہے
میں ہوں اور تنہائی
گھر کا ایک کونا ہے
چائے کی پیالی میں
آسماں ڈبونا ہے
کائنات سے باہر
کیا کسی نے ہونا ہے
عرش کا گریباں بھی
آگ میں بھگونا ہے
موت کو بھی آخر کار
قبر میں سمونا ہے
آبلوں کے دریا کو
دشت بھر چبھونا ہے
تیرے دل میں میرا غم
پھر مجھے کہونا، ہے
حسن دھوپ میں منصور
سانولا سلونا ہے
منصور آفاق

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s