منصور آفاق ۔ غزل نمبر 42
پیڑ پر شام کھلی، شاخ سے ہجراں نکلا
پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا
رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی
اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا
نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے
کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا
خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے
رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا
لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر
والیء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا
صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ
جانے کس کھوج میں پھر شہرِ پریشاں نکلا
وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے
اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا
زخمِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن
چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا
تیرے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں
یہ خرابہ تو مری جان ! گلستاں نکلا
زخم کیا داد وہاں تنگیء دل کی دیتا
تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا
رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور
جو شبِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا
منصور آفاق