منصور آفاق ۔ غزل نمبر 188
سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس
پاؤں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس
ایک پتھر ہے کہ بس سرخ ہوا جاتا ہے
کوئی پہروں سے کھڑا ہے کسی دیوار کے پاس
گھنٹیاں شور مچاتی ہیں مرے کانوں میں
فون مردہ ہے مگر بسترِ بیدار کے پاس
کس طرح برف بھری رات گزاری ہو گی
میں بھی موجود نہ تھا جسمِ طرح دار کے پاس
عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج
طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستار کے پاس
چشمِ لالہ پہ سیہ پٹیاں باندھیں منصور
سولیاں گاڑنے والے گل و گلزار کے پاس
منصور آفاق