منصور آفاق ۔ غزل نمبر 629
آنکھوں سے منصور شباہت گر جاتی ہے
ٹوٹے جو شیشہ تو صورت گر جاتی ہے
روز کسی بے انت خزاں کے زرد افق میں
ٹوٹ کے مجھ سے شاخِ تمازت گر جاتی ہے
باندھ کے رکھتا ہوں مضبوط گرہ میں لیکن
پاکستانی نوٹ کی قیمت گر جاتی ہے
اک میری خوش وقتی ہے جس کے دامن میں
صرف وہی گھڑیال سے ساعت گر جاتی ہے
لیپ کے سوتا ہوں مٹی سے نیل گگن کو
اٹھتا ہوں تو کمرے کی چھت گر جاتی ہے
ہجر کی لمبی گلیاں ہوں یا وصل کے بستر
آخر اک دن عشق میں صحت گر جاتی ہے
برسوں ظلِّ الہی تخت نشیں رہتے ہیں
خلقِ خدا کی روز حکومت گر جاتی ہے
منصور آفاق