منصور آفاق ۔ غزل نمبر 251
ڈھونڈتی ہے آسماں پر در کوئی تاروں کے بیچ
نیند سے بولائی دستک تیری دیواروں کے بیچ
گفتگو کیا ہو مقابل جب ہیں خالی پگڑیاں
پہلے تو سر بھی ہوا کرتے تھے دستاروں کے بیچ
اے خدا میرا بھرم رکھنا، فراتِ وقت پر
اک انا کا بانکپن ہے کتنی تلواروں کے بیچ
ریل کی پٹری بچھائی جا رہی ہے اس کے ساتھ
ایک کاٹج کیا بنایا میں نے گلزاروں کے بیچ
جانتی تھی اور سب کو ایک بس میرے سوا
وہ کہیں بیٹھی ہوئی تھی چند فنکاروں کے بیچ
دھوپ بھی ہے برف تیری سرد مہری کے طفیل
رات بھی پھنکارتی ہے تیرے آزاروں کے بیچ
منصور آفاق