منصور آفاق ۔ غزل نمبر 298
خاک پر آسماں ہوئے جائیں
نظم میں ہم بیاں ہوئے جائیں
دل نے خوشبو کشید کرلی ہے
ہم کہاں رائیگاں ہوئے جائیں
تتلیوں کے پروں پہ لکھے ہم
وقت کی داستاں ہوئے جائیں
گفتگو کی گلی میں ہم اپنی
خامشی سے عیاں ہوئے جائیں
مسجدِ دل کی خالی چوکھٹ پر
ہم عشاء کی اذاں ہوئے جائیں
اُس مکیں کی امید پر منصور
ہم سراپا مکاں ہوئے جائیں
منصور آفاق