منصور آفاق ۔ غزل نمبر 84
توحید پرستوں کے جو ہونٹوں سے بھرا تھا
نسبت تھی کہ پتھر کوئی بوسوں سے بھرا تھا
ہلکی سی بھی آواز کہیں دل کی نہیں تھی
مسجد کا سپیکر تھا صداؤں سے بھرا تھا
بارود کی بارش ابھی بادل میں بھری تھی
وہ باغ ابھی بھاگتے بچوں سے بھرا تھا
جس رات لہو چلتا تھا پلکوں کے کنارے
اُس رات فلک سرخ ستاروں سے بھرا تھا
آوارہ محبت میں وہ لڑکی بھی بہت تھی
منصور مرا شہر بھی کتوں سے بھرا تھا
منصور آفاق