ندی کو کچھ پرانے کوہساروں سے شکایت تھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 484
خموشی سے گلہ تھا اور قراروں سے شکایت تھی
ندی کو کچھ پرانے کوہساروں سے شکایت تھی
کہاں بادِ خزاں کی بادشاہی جانے والی ہے
یونہی گلزاروں کو آتی بہاروں سے شکایت تھی
لہو برسا دیا ہے مسجدِ اقصیٰ کے سجدوں پر
جنہیں آزاد جیون کی پکاروں سے شکایت تھی
کوئی قاتل بلایاہے شبِ غم کے مغنی نے
اسے تیور سروں کی بجتی تاروں سے شکایت تھی
ہمیں توکربلا کے ریگ زاروں سے شکایت ہے
ہمیں توکربلا کے ریگ زاروں سے شکایت تھی
ابھی تک اشہبِ دوراں کی خالی پیٹھ ہے منصور
گذشتہ کو بھی مشرق کے سواروں سے شکایت تھی
منصور آفاق

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s