منصور آفاق ۔ غزل نمبر 544
یہ گہرے سبز سے کہسار مجھ سے
ندی بھی ہے سبک رفتار مجھ سے
زمانہ ہے سحر آثار مجھ سے
ملو آ کے افق کے پار مجھ سے
اسے ہر بار ایسے دیکھتا ہوں
ملا ہے جیسے پہلی بار مجھ سے
طلب کی آخری حد آ گئی ہے
وہ آئے اور سنے انکار مجھ سے
مری تقدیر میں بربادیاں ہیں
کہے ٹوٹا ہوا اوتار مجھ سے
سمجھ کر دھوپ مجھ کو زندگی کی
گریزاں سایہء دیوار مجھ سے
درختوں پر میں بارش کی طرح ہوں
ہوا میں خاک کی مہکار مجھ سے
مسلسل لفظ ہیں کرب و بلا میں
سرِ نوکِ سناں اظہار مجھ سے
منائیں لوگ جشن فتح مندی
فقط نسبت ہے تیری ہار مجھ سے
پڑا کوئے ملامت میں کہیں ہوں
تعلق کیا رکھے دستار مجھ سے
میں شب بھر چاند کو منصور دیکھوں
یہ چاہے دیدئہ بیدار مجھ سے
منصور آفاق