میں خدا اور کائنات

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 3
چل رہے ہیں ایک ساتھ
میں خدا اور کائنات
عرش پر بس بیٹھ کر
کن فکاں کا چرخہ کات
مرد و زن کا اجتماع
بیچ صدیوں کی قنات
دو وجودوں میں جلی
سردیوں کی ایک رات
بند ذرے میں کوئی
کائناتی واردات
آسیا میں قطب کی
سو گئیں سولہ جہات
پانیوں پر قرض ہے
فدیۂ نہر فرات
تُو پگھلتی تارکول
میں سڑک کا خشک پات
تیرا چہرہ جاوداں
تیری زلفوں کو ثبات
رحمتِ کن کا فروغ
جشن ہائے شب برات
شب تھی خالی چاند سے
دل رہا اندیشوں وات
نت نئے مفہوم دے
تیری آنکھوں کی لغات
آنکھ سے لکھا گیا
قصۂ نا ممکنات
گر پڑی ہے آنکھ سے
اک قیامت خیز بات
تیرے میرے درد کا
ایک شجرہ، ایک ذات
کٹ گئے ہیں روڈ پر
دو ہوا بازوں کے ہاتھ
لکھ دی اک دیوار پر
دل کی تاریخِ وفات
موت تک محدود ہیں
ڈائری کے واقعات
منصور آفاق

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s