منصور آفاق ۔ غزل نمبر 20
کھینچ لی میرے پاؤں سے کس نے زمیں ، میں نہیں جانتا
میرے سر پہ کوئی آسماں کیوں نہیں ، میں نہیں جانتا
کیوں نہیں کانپتا بے یقینی سے پانی پہ چلتے ہوئے
کس لیے تجھ پہ اتنا ہے میرا یقیں ، میں نہیں جانتا
ایک خنجر تو تھا میرے ٹوٹے ہوئے خواب کے ہاتھ میں
خون میں تر ہوئی کس طرح آستیں ، میں نہیں جانتا
کچھ بتاتی ہیں بندوقیں سڑکوں پہ چلتی ہوئی شہر میں
کس طرح، کب ہوا، کون مسند نشیں ، میں نہیں جانتا
لمحہ بھر کی رفاقت میں ہم لمس ہونے کی کوشش نہ کر
تیرے بستر کا ماضی ہے کیا میں نہیں ، میں نہیں جانتا
اس کے بے مہر دوزخ میں اپنی تو گزری ہیں تنہائیاں
اُس مبارک گلی کا بہشتِ بریں ، میں نہیں جانتا
کیا مرے ساتھ منصور چلتے ہوئے راستے تھک گئے
کس لیے ایک گھر چاہتا ہوں کہیں ، میں نہیں جانتا
منصور آفاق