منصور آفاق ۔ غزل نمبر 212
بڑی سست رفتاریوں سے بھلے چل
محبت کے ٹھہرے ہوئے سلسلے چل
وہاں گھر ہے دریا جہاں ختم ہو گا
چلے چل کنارے کنارے چلے چل
خدا جانے کب پھر ملاقات ہو گی
ٹھہر مجھ سے جاتے ہوئے تو ملے چل
میں تیرے سہارے چلا جا رہا ہوں
ذرا اور ٹوٹے ہوئے حوصلے چل
نئے ساحلوں کے مسائل بڑے ہیں
تُو پچھلی زمیں کی دعا ساتھ لے چل
اکیلا نہ منصور رہ کیرواں میں
محبت کے چلنے لگے قافلے چل
منصور آفاق