منصور آفاق ۔ غزل نمبر 233
گزرتا ہے کوئی برسوں میں تارہ دیکھتے کیا ہو
محبت کا یہ کم آباد رستہ دیکھتے کیا ہو
مرے برجِ جدی تم ہو یہ خوش بختی تمہی سے ہے
لکیریں دیکھتے کیا ہو ستارہ دیکھتے کیا ہو
محبت وہ نہیں حاصل جہاں لا حاصلی بس ہو
جو کھلتا ہی نہیں ہے وہ دریچہ دیکھتے کیا ہو
یہاں کاغذ پہن کر صرف میرے خواب رہتے ہیں
یہ بے ترتیب سا نظموں کا کمرہ دیکھتے کیا ہو
ہے بندو بست ، لمس و ذائقہ کی پیاس کا منصور
نگاہوں سے کسی کا صرف چہرہ دیکھتے کیا ہو
منصور آفاق