منصور آفاق ۔ غزل نمبر 483
ایک ٹوٹی ہوئی مسجد میں رہائش کیا تھی
مجھ سے موسیٰ کو ملاقات کی خواہش کیا تھی
شامیانوں سے نگر ڈھانپ رہی تھی دنیا
حاکمِ شہر کی جادو بھری بارش کیا تھی
اپنے خالق کی بھی تفہیم وہ رکھ سکتا تھا
مجھ سے مت پوچھ کہ روبوٹ کی دانش کیا تھی
ناچتی پھرتی تھی اک نیم برہنہ ماڈل
خالی بوتیک تھا کپڑوں کی نمائش کیا تھی
جل گئی تھی مری آغوش گلوں سے منصور
رات وہ بوسۂ سرگرم کی سازش کیا تھی
منصور آفاق