منصور آفاق ۔ غزل نمبر 257
اک راکھ کے بدن کو ہوا کی رپورتاژ
لکھ کر بکھیرنی ہے وفا کی رپورتاژ
میں کھڑکیوں سے صبح کی پہلی کرن کے ساتھ
پڑھتا ہوں روز باد صبا کی رپورتاژ
تشکیل کائنات کی رودادِ گم شدہ
ہو گی کہاں پہ لوحِ خدا کی رپورتاژ
شاید ہے مانگنے کی جبلت وجود میں
لمبی بہت ہے دستِ دعا کی رپورتاژ
تقسیم کیا کرو گے وسائل زمین کے
لکھتے رہو گے جرم و سزا کی رپورتاژ
لکھتے ہیں روز خونِ جگر کو نچوڑ کے
سورج کے ہاتھ شامِ فنا کی رپورتاژ
لاشوں بھری سرائے سے نکلے گی کب تلک
جانِ جہاں کے ناز و ادا کی رپورتاژ
پڑھتے بنام علم ہیں بچے سکول میں
بالِ ہما کے بختِ رسا کی رپورتاژ
شاید لبِ فرات لہو سے لکھی گئی
اس زندگی کی نشو و نما کی رپورتاژ
برسوں سے نیکیوں کا فرشتہ رقم کرے
منصور صرف آہ و بکا کی رپورتاژ
منصور آفاق