منصور آفاق ۔ غزل نمبر 88
زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا
فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا
میں بھر لایا ہوں مشکیزہ دکھوں سے
کنویں کی تہہ میں صحرا گر پڑا تھا
سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن
ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا
مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر
کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا
کھلی تھی اک ذرا بس چونچ اس کی
کہیں چاول کا دانہ گر پڑا تھا
مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں
اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا
مری سچائی میں دہشت بڑی تھی
کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا
بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے
ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا
مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں
نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا
اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں
بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا
نظر منصور گولی بن گئی تھی
ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا
منصور آفاق