منصور آفاق ۔ غزل نمبر 631
آگ میں برگ وسمن کی جھڑی لگ سکتی ہے
شاخ پر اب بھی کوئی پنکھڑی لگ سکتی ہے
یہ بھی ہوسکتا ہے آنے کی خوشی میں اسکے
بام پہ قمقموں کی اک لڑی لگ سکتی ہے
اس کے وعدہ پہ مجھے پورا یقیں ہے لیکن
لوٹ آنے میں گھڑی دو گھڑی لگ سکتی ہے
رک بھی سکتی ہے یہ چلتی ہوئی اپنی گاڑی
میخ ٹائر میں کہیں بھی پڑی لگ سکتی ہے
جب کوئی ساتھ نہ دینے کا ارداہ کر لے
ایک نالی بھی ندی سے بڑی لگ سکتی ہے
دامِ ہمرنگ زمیں غیر بچھا سکتے ہیں
کوچۂ یار میں دھوکا دھڑی لگ سکتی ہے
اِس محبت کے نتائج سے ڈر آتا ہے مجھے
اِس شگوفے پہ کوئی پھلجھڑی لگ سکتی ہے
میں میانوالی سے آسکتاہوں ہر روز یہاں
خوبصورت یہ مجھے روکھڑی لگ سکتی ہے
جرم یک طرفہ محبت ہے ازل سے منصور
اِس تعلق پہ تجھے ہتھکڑی لگ سکتی ہے
منصور آفاق