منصور آفاق ۔ غزل نمبر 13
ہیں کسی تکلیف کی کیا خوبرو تبدیلیاں
سن رہا ہوں شب کی تیرہ ساعتوں کی سسکیاں
چھڑ گئے ہیں پھر مسائل ایک کالی رات کے
آرہی ہیں یاد پھر سے زندگی کی تلخیاں
میں نے مصرع کی کلائی کو نئے کنگن دئیے
شانِ دوشیزہ سخن میں ہو گئیں گستاخیاں
آخری تاریکیاں ہیں قریہء امکان میں
گن رہا ہوں ہچکیاں پچھلے پہر کی ہچکیاں
اک اشارہ چاہئے حرفِ کرم کا صبح کو
دیدۂ تقویم میں ہیں وقت کی بے تابیاں
امتِ مرحومہ کو پھر بخش دے روحِ حیات
سربکف تیرے لئے ہے ظالموں کے درمیاں
میں نے جو منصور لکھا اُس پہ شرمندہ نہیں
مجھ سے پائندہ ہوئی ہیں حرف کی رعنائیاں
منصور آفاق