منصور آفاق ۔ غزل نمبر 330
کرتا ہوں اپنے آپ سے جھگڑا فراق میں
رہتا نہیں ہوں دوستو اپنا فراق میں
میں دیکھتا ہوں تیرے خدو خال کے چراغ
آئینہ دیکھتا ہے تماشا فراق میں
بڑھتی ہے اس کے صحن میں آشفتگی مری
کرتا ہوں چاند رات کا پیچھا فراق میں
یاجانتے ہیں راستے یاجانتا ہوں میں
کیسے یہ ایک سال گزارا فراق میں
میں تو بناتا رہتا ہوں تصویرِخواب کی
تُو بول کیا ہے مشغلہ تیرا فراق میں
ساحل پہ دیکھتے ہیں کئی درد اور بھی
میں اور انتظار کا دریا فراق میں
منصور پھیربس وہی آنکھوں پہ دھجیاں
وہ یادگارِ دستِ زلیخا فراق میں
منصور آفاق