منصور آفاق ۔ غزل نمبر 27
رنگ اپنے محاط سے گزرا
روح کے اختلاط سے گزرا
عشق ڈھائیں قیامتیں کیا کیا
دل کئی پل صراط سے گزرا
روزمحشر بھی اسکے پہلو سے
میں بڑی احتیاط سے گزرا
ہر جگہ نقشِ پا ہیں کیوں میرے
کب میں شہرِ رباط سے گزرا
پھول سے قمقمے تھے پانی میں
جب میں نہرِ نشاط سے گزرا
نور کی پتیوں کی بارش میں
دل شبِ انبساط سے گزرا
میں الف کی شبیہ بنانے میں
بے کے کتنے نقاط سے گزرا
ہائے وہ جو تراشنے کے بعد
ایک سو دس قراط سے گزرا
شب گزرتی ہے جیسے یوں منصور
زندگی کی بساط سے گزرا
منصور آفاق