منصور آفاق ۔ غزل نمبر 541
لوٹ آئی ہوئی اک گزری گھڑی حیرت سے
دیکھتی تھی مجھے ٹیرس پہ کھڑی حیرت سے
کوئی آیا کسی کمرے میں کرامت کی طرح
اور تصویر کوئی بول پڑی حیرت سے
اک بگولے کی طرح اڑتے ہوئے دیکھتی تھی
درد کی دھول کو ساون کی جھڑی حیرت سے
تک رہی تھی کسی بنتے ہوئے ہیکل کے کلس
ایک دیمک زدہ لکڑی کی چھڑی حیرت سے
عشق اسرارِ لب و رخ سے کیا ہجر کی رات
رات بھر اپنی تو بس آنکھ لڑی حیرت سے
جلد میں اتنی بھی ہوتی ہے سفیدی منصور
چھو کے دیکھا تھا اسے میں نے بڑی حیرت سے
منصور آفاق