منصور آفاق ۔ غزل نمبر 560
ساتھ نہ تھا کوئی اپنے ساتھ سے پہلے
دھند تھی دنیا شعورِ ذات سے پہلے
بزمِ سخن یعنی چہرہ بول پڑا تھا
غم کی تلاوت تھی، حمد و نعت سے پہلے
نیند بھری رات ! انتظار کسی کا
ہوتا تھا ترکِ تعلقات سے پہلے
کہتے ہیں خالی نگر میں رہتی ہیں روحیں
لوٹ چلیں گھر کو آؤ رات سے پہلے
کیسا تھا سناٹا تیرے عہدِ عدم میں
کیسی خموشی تھی پہلی بات سے پہلے
خواب تھے پنہاں شکستِ زعم میں شاید
فتح کی باتیں کہاں تھیں مات سے پہلے
منصور آفاق