منصور آفاق ۔ غزل نمبر 617
عشق میں کوئی کہاں معشوق ہے
دل مزاجاً میری جاں معشوق ہے
جس سے گزرا ہی نہیں ہوں عمر بھر
وہ گلی وہ آستاں معشوق ہے
رفتہ رفتہ کیسی تبدیلی ہوئی
میں جہاں تھا اب وہاں معشوق ہے
ہے رقیبِ دلربا اک ایک آنکھ
کہ مرا یہ آسماں معشوق ہے
مشورہ جا کے زلیخا سے کروں
کیا کروں نامہرباں معشوق ہے
صبحِ ہجراں سے نشیبِ خاک کا
جلوۂ آب رواں معشوق ہے
ہیں مقابل ہر جگہ دو طاقتیں
اور ان کے درمیاں معشوق ہے
گھنٹیاں کہتی ہیں دشتِ یاد کی
اونٹنی کا سارباں معشوق ہے
وہ علاقہ کیا زمیں پر ہے کہیں
ان دنوں میرا جہاں معشوق ہے
میں جہاں دیدہ سمندر کی طرح
اور ندی سی نوجواں معشوق ہے
ہر طرف موجودگی منصور کی
کس قدر یہ بے کراں معشوق ہے
منصور آفاق