منصور آفاق ۔ غزل نمبر 53
جتنے موتی گرے آنکھ سے جتنا تیرا خسارا ہوا
دست بستہ تجھے کہہ رہے ہیں وہ سارا ہمارا ہوا
آگرا زندہ شمشان میں لکڑیوں کا دھواں دیکھ کر
اک مسافر پرندہ کئی سرد راتوں کا مارا ہوا
ہم نے دیکھا اسے بہتے سپنے کے عرشے پہ کچھ دیر تک
پھر اچانک چہکتے سمندر کا خالی کنارا ہوا
جا رہا ہے یونہی بس یونہی منزلیں پشت پر باندھ کر
اک سفر زاد اپنے ہی نقشِ قدم پر اتارا ہوا
زندگی اک جُوا خانہ ہے جس کی فٹ پاتھ پر اپنا دل
اک پرانا جواری مسلسل کئی دن کا ہارا ہوا
تم جسے چاند کا دیس کہتے ہو منصور آفاق وہ
ایک لمحہ ہے کتنے مصیبت زدوں کا پکارا ہوا
منصور آفاق