منصور آفاق ۔ غزل نمبر 206
کیس ، ممکن ہے مکرو ریا کے خلاف
جاعدالت میں اُس بے وفا کے خلاف
یہ جنارہ بھی دراصل ہے اک جلوس
نیستی کے مقامِ فنا کے خلاف
تیری آواز بھی سلب ہوسکتی ہے
گفتگو کر نہ قحطِ نوا کے خلاف
پھر رہا ہے برہنہ کوئی شہر میں
پھر رعونت زدہ بادشہ کے خلاف
یہ کرشمہ مسلسل گھٹن سے ہوا
ہو گئے پھول تازہ ہوا کے خلاف
اک یہی زندگی کا سہارا ہے بس
میں نہیں ہوں وجودِ خدا کے خلاف
خوشبوئے یارسے یہ معطر نہیں
بات کر کوئی بادِ صبا کے خلاف
خاک پر مجھ کو منصور بھیجا گیا
میری مرضی کے میری رضاکے خلاف
منصور آفاق