جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستۂ مخصوص

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 198
فردوس سے آگے ہے وہ سرچشمۂ مخصوص
جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستۂ مخصوص
اپنی تو رسائی نہیں اس بامِ فلک تک
معلوم کیا جائے کوئی بندۂ مخصوص
اے شہرِ گداگر ترے والی کے لیے کیا
بنوانا ضروری ہے کوئی کاسۂ مخصوص
انکارِ مسلسل کی فصیلیں ہیں جہاں پر
تسخیر کروں گا میں وہی رشتۂ مخصوص
اک نرم سے ریشے کی کسی نس کے نگر میں
بس دیکھتا پھرتا ہوں ترا چہرۂ مخصوص
کہتے ہیں کہ آسیب وہاں رہنے لگے ہیں
ہوتا تھا کسی گھر میں مرا کمرۂ مخصوص
سنتے ہیں نکلتا ہے فقط دل کی گلی سے
منزل پہ پہنچ جاتا ہے جو جادۂ مخصوص
لوگوں سے ابوزر کے روابط ہیں خطرناک
صحرا میں لگایا گیا پھر خیمۂ مخصوص
ہنستے ہوئے پانی میں نیا زہر ملا کر
بھیجا ہے کسی دوست نے مشکیزۂ مخصوص
آواز مجھے دیتا ہے گرداب کے جیسا
منصور سمندر میں کوئی دیدۂ مخصوص
منصور آفاق

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s