منصور آفاق ۔ غزل نمبر 607
آنکھیں نہیں شرارِ تمناخراب ہے
تم سادہ لوح شخص ہو ، دنیا خراب ہے
پانی کھڑاہے دل میں گڑھے ہیں جگہ جگہ
میں آرہاہوں ، ٹھہرو، یہ رستہ خراب ہے
مسجد کے بیچ اس کی کہانی کچھ اور ہے
حجرے کے بیچ صاحبِ حجرہ خراب ہے
سیلاب آئے گا میری چشم پُرآب میں
کتنے دنوں سے نیتِ دریا خراب ہے
بازو کو مت پکڑ ، مرے پہلو ست دوررہ
اے لمسِ یار !میرا ارادہ خراب ہے
برسوں ہوئے ہیں یاد سے باہر نہیں گیا
جاتا کہاں کہ سارا زمانہ خراب ہے
منصور کچھ بچا نہیں اب جس کے واسطے
دروازے پر کھڑا وہی خانہ خراب ہے
منصور آفاق