بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 521
فراق بیچتے کیسے، پلان کیا کرتے
بدن کے شہر میں دل کی دکان کیا کرتے
ہمیں خبر ہی نہ تھی رات کے اترنے کی
سو اپنے کمرے کا ہم بلب آن کیا کرتے
نکل رہی تھی قیامت کی دھوپ ایٹم سے
یہ کنکریٹ بھرے سائبان کیا کرتے
تھلوں کی ریت پہ ٹھہرے ہوئے سفینے پر
ہوا تو تھی ہی نہیں بادبان کیا کرتے
بدن کا روح سے تھا اختلاف لیکن ہم
خیال و واقعہ کے درمیان کیا کرتے
فلک نژاد تھے اور لوٹ کے بھی جانا تھا
زمیں کے کس طرح ہوتے، مکان کیا کرتے
نمازاوڑھ کے رکھتے تھے، حج پہنتے تھے
ترے ملنگ تھے ہم ،دو جہان کیا کرتے
دکانِ دین فروشی پہ بِک رہا تھا تُو
تجھے خریدتے کیسے ، گمان کیا کرتے
نہ ہوتی صبحِ محمدثبوتِ حق کیلئے
تو یہ چراغوں بھرے آسمان کیا کرتے
پھر اس کے بعد بلندی سے کیا ہمیں منصور
مقامِ عرش سے کوئی اڑان کیا کرتے
منصور آفاق

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s