منصور آفاق ۔ غزل نمبر 445
کالکیں چہرے سے چھل کے صبح شرمندہ ہوئی
اک سیہ مورت سے مل کے صبح شرمندہ ہوئی
جس کی نس نس میں اندھیرے تھے تبسم آفریں
اس کلی کے ساتھ کھل کے صبح شرمندہ ہوئی
وہ مجسم رات وہ کالی صراحی کے خطوط
دامنِ خوباں میں سل کے صبح شرمندہ ہوئی
حسرتوں کی ٹھیکرے تھے، ڈھیر تھے افسوس کے
پھر کھنڈر میں آ کے دل کے صبح شرمندہ ہوئی
اس نے زلفوں کو بکھیرا اور سورج بجھ گیا
سامنے لہراتے ظل کے صبح شرمندہ ہوئی
ہر نمو مٹی کی کالی قبر سے آباد تھی
بیچ شہرِآب و گل کے صبح شرمندہ ہوئی
یار کے رخسار پر ہے اک عجب کالا گلاب
پھر مقابل ایک تل کے صبح شرمندہ ہوئی
کنجِ لب سے ہی نکلتی یار کے تو بات تھی
بس افق کے پاس کھل کے صبح شرمندہ ہوئی
جھانک سکتی ہی نہیں مٹی کے اندر روشنی
خاک پہ منصور پل کے صبح شرمندہ ہوئی
منصور آفاق