منصور آفاق ۔ غزل نمبر 118
ٹوٹے ہوئے کواڑ کے منظر نے آ لیا
آوارگی کی شام مجھے گھر نے آ لیا
میں جا رہا تھا زخم کا تحفہ لیے بغیر
پھر یوں ہوا کہ راہ کے پتھر نے آ لیا
میں سن رہا ہوں اپنے ہی اندر کی سسکیاں
کیا پھر کسی عمل کے مجھے ڈرنے آ لیا
گزرا کہیں سے اور یہ آنکھیں چھلک پڑیں
یادش بخیر ! یادِ ستم گر نے آ لیا
وہ جس جگہ پہ اُس سے ملاقات ہونی تھی
پہنچا وہاں تو داورِ محشر نے آ لیا
منصور چل رہا تھا ابھی کہکشاں کے پاس
یہ کیا ہوا کہ پاؤں کی ٹھوکر نے آ لیا
منصور آفاق