آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 7
میں جا رہا تھا دیکھنے فرودسِ بے کنار
آنکھوں سے گرپڑے کئی نیلم کے آبشار
شادابیوں کی آخری حد، وادئ گریز
پاؤں کے انتظار میں صدیوں سے اشکبار
ہلمت کی بے پناہ بلندی پہ تیز آب
پھرتا ہے بادلوں کے دریچوں میں بے قرار
لاکھوں برس قدیم گھنے جنگلوں کا کیل
اور اس کے بیچ زندگی باردو کا شکار
کیوں صحنِ شاردا میں ہوئی بدھ کی آتما
کتنے کروڑ لوگوں کے اشکوں سے داغدار
معصوم داؤکھن کی مقدس سفیدیاں
اک دورِ جاھلاں میں رسولوں میں انتظار
شمشہ بری کے پیچھے چناروں کا سرخ روپ
بادل بھری شعاعوں کامقتل پسِ بہار
اڑتے ہیں دھیر کوٹ کی گلیوں میں برگ و بار
جیسے بدلنے لگتی ہے تہذیبِ برف زار
شبنم کے موتیوں سے بھرا راولہ کا کوٹ
ہر سنگ میں دکھاتا ہے اک چشمِ آب دار
بنجوسہ جیسے آب درختوں کے تھال میں
بس گھومتی ہے روح میں خاموش سی پکار
دریائے تند سو گئے منگلا کی گود میں
منصور ڈھونڈتا رہا کشمیر کے سوار
منصور آفاق

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s