منصور آفاق ۔ غزل نمبر 532
دشت کو ابر نہ دے ، دھوپ پہ سایہ نہ کرے
اُس س کہہ دو کہ مرے ہجر کو رسوا نہ کرے
ایک امید کی کھڑکی سی کھلی رہتی ہے
اپنے کمرے کا کوئی، بلب بجھایا نہ کرے
میں مسافر ہوں کسی روز تو جانا ہے مجھے
کوئی سمجھائے اسے میری تمنا نہ کرے
روز ای میل کرے سرخ اِمج ہونٹوں کے
میں کسی اور ستارے پہ ہوں ، سوچا نہ کرے
حافظہ ایک امانت ہی سہی اس کی مگر
وہ شب و روز خیالوں میں تماشا نہ کرے
شب کبھی وصل کی دے وہ تو گھڑی بھر کی ہو
رات ہجراں کی جو آئے تو سویرا نہ کرے
بال بکھرائے ہوئے درد کے خالی گھر میں
یاد کی سرد ہوا شام کو رویا نہ کرے
چھو کے بھی دیکھنا چاہتی ہیں یہ پوریں اس کو
آ نہیں سکتا تو پھر یاد بھی آیا نہ کرے
چاند کے حسن پہ ہر شخص کا حق ہے منصور
میں اسے کیسے کہوں رات کو نکلا نہ کرے
منصور آفاق