اور پاؤں کئی چوکور چلے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 558
بستی سے تری ،کمزور چلے
اور پاؤں کئی چوکور چلے
صحرا میں کہیں بھی ابر نہیں
دریا پہ گھٹا گھنگھور چلے
پھر میرے میانوالی نے کہا
تم لوگ کہاں لاہور چلے
یادوں میں مثالِ قوسِ قزح
رنگوں سے بھرا بلور چلے
گلیوں میں کہیں بندوق چلی
حکام مرے پُر شور چلے
دوچار پرندے ساتھ گریں
جس وقت یہ بارہ بور چلے
اب رنگ بدل کر پھول کھلیں
اب چال بدل کر مور چلے
میں اور جہاں خاموش رہا
سامان اٹھا کر چور چلے
منصور کہانی روندی گئی
کردار بڑے منہ زور چلے
منصور آفاق

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s