منصور آفاق ۔ غزل نمبر 296
آنکھ بنو تم اور ہم منظر بن جائیں
اور وہیں پھر دونوں پتھر بن جائیں
ان پیروں سے کیسے گریزاں منزل ہو
جو آپ ہی رستہ آپ سفر بن جائیں
جن لوگوں کے بیج کجی سے نکلے ہوں
وہ کیسے سایہ دار شجر بن جائیں
گھل جائیں لہروں میں ایک سمندر کی
ریت پہ پھیلی دھوپ کی چادر بن جائیں
مار کے سورج کے سینے میں طنز کے تیر
خود نہ کہیں ہم ایک تمسخر بن جائیں
جنس کے بینر لٹکائیں بازاروں میں
اور فرائیڈ سے دانش ور بن جائیں
جو موجود نہیں تقویم کے اندر بھی
ان تاریخوں کا کیلنڈر بن جائیں
کچھ یاروں کی لاشیں گل سڑ جائیں گی
بہتر ہے منصور فریزر بن جائیں
منصور آفاق